پہلا موضوع: خدا



نوٹ: یہی وہ کتاب "اسرار ہزار سالہ" ہے جس نے 1943 عیسوی میں ایران میں ہلچل پیدا کیا تھا،اور آیت اللہ خمینی نے اسی کتاب کے جواب میں "کشف الاسرار" لکھی ہے۔منتخب اردو ترجمہ پیش خدمت ہے!! کتاب کے مخاطب ایرانی علماء و مجتہدین ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پہلا موضوع: خدا

آج ہمارا دین یہی کہتا ہے کہ خدا ایک ہے لیکن عملی لحاظ سے ہم ایک ایسے مقام پر پہنچے ہیں کہ جو شرک سے بھی بدتر ہے! ہم اس ذات کو خدا کا نام تو دیتے ہیں لیکن اس کے اختیارات اور قدرت کو ہم نے اماموں اور امام زادوں میں تقسیم کیا ہوا ہے جن میں سے ہر ایک اپنے حصہ کا کام کرتا ہے۔کوئی اگر اللہ کے بارے میں کتنی ہی بدگوئی کرے تو ہم نہیں دیکھتے کہ کوئی آکر اس کو روک لے۔خیام اور دوسروں نے سب نے اللہ کی شان میں بے ادبی کی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی ہم ان کو فلاسفر تھے ۔اور بزرگ قرار دیتے ہیں اس کو،اور ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کی کتاب کہاں سے ملتی ہے۔لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ گنبد پرستی بالکل وہی بت پرستی ہی ہے کہ جن تمام چیزوں سے اسلام نے جنگ کی،تو کہتے ہیں کہ ایسا کہنے والے کا عقیدہ فاسد ہے اور اس کے افکار زہریلے ہیں۔
زیارت جامعہ کبیرہ جو مجلسی کے مطابق بہترین زیارات میں سے ہیں ،سند متن فصاحت اور معجزات کے حوالے سے(اس جیسی دوسری زیارت نہیں)،اس میں کہتے ہیں:
مَنْ أَرَادَ اللَّهَ بَدَأَ بِكُمْ،... وَمَنْ قَصَدَهُ تَوَجَّهَ بِكُمْ... بِكُمْ فَتَحَ اللَّهُ وَبِكُمْ يَخْتِمُ الله... بِكُمْ يُنَزِّلُ اللهُ الْغَيْثَ من السماء...آخر تک
اگر یہ کلمات شرک نہیں ہے تو دنیا میں کوئی چیز موجود ہی نہیں جسے ہم شرک کا نام دیں۔
کتاب الکافی جو 4 معتبر کتب میں سے ہیں(کتب اربعہ)،اس میں لکھا ہے
اللہ تعالی نے دنیا کو پیدا کیا اور اس دنیا کے امور محمد ص،علی،فاطمہؑ ۔۔۔ کے حوالے کر دیے۔خلق الله الدنيا وفوّض أمرها إلى محمد وعلي وفاطمة...
اور اس کے بعد جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کے علاوہ افراد کا اضافہ ہوگیا(نہپ کہ صرف یہ اشخاص)،کہ آج شاید ہی کوئی شہر یا دیہات ہو جس میں کوئی بت خانہ نہ بنا ہو۔
شاید یہ کہیں کہ یہ چیز بت پرستی نہیں ہے۔ہم کہتے ہیں کہ پھر پہلے بت پرستی کے معنی تو بتا دو،تاکہ بات ہی ختم ہو جائے،قرآن مجید کہتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے سوا کارساز بنائے ہوئے تھے وہ بھی بس یہی کہتے تھے کہ ہم ان کی پرستش نہیں کرتے مگر صرف اس لیے کہ یہ ہمیں خدا کے نزدیک کرتے ہیں۔
﴿ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى...﴾ [الزمر:3].
اس آیت اور دیگر آیات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے کام(حاجات طلب کرنا) غیر اللہ سے طلب کرنا اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنا یہی شرک تھا۔
اگر تم اس معنی کو مانتے ہو تو ٹھیک نہیں تو خود معنی بیان کرو شرک کے،تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ جس شرک سے اسلام نے 23 سال جنگ کی وہ شرک پھر کیا ہے،تم تو وہ لوگ ہو جو بعض مسائل میں بہت زیادہ تحقیق و دقت سے کام لیتے ہو،لیکن اتنے اہم موضوع پر تھقیق کیوں نہیں کرتے ہو؟؟قرآن مجید اور اسلام کی تاریخ میں 100 میں سے 90 فیصد کا تعلق شرک سے جنگ ہے، لیکن تم نے شرک کے معنی کو بھلا دیا ہے اور لوگوں کو ایسے کاموں میں مشغول کر رکھا ہے کہ جس میں نہ ان کا دنیوی فائدہ ہے اور نہ آخرت میں کوئی فائدہ۔ؔ
مجھے واقعی ہنسنا آتا ہے کہ جب میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ جو اسلام کے دعویدار ہیں،یا اس کی حمایت کا دعوی کرتے ہیں،اسلام کی اساس اور رکن اول توحید ہی ہے،تم نے توحید سے کیا فائدہ حاصل کیا؟اگر کوئی مادی شخص مکمل توحید کا دعوی کرے تو وہ اس سے قریب تر ہے،لیکن اس کے مقابلے میں تم لوگوں نے ہزاروں پتھروں،قبروں کی لکڑیوں،اور صاحب قبر کو موثر اور اختیارات والا سمجھ رکھا ہے!!

قرآن میں چند جگہ کہا گیا ہے کہ خود پیغمبر اکرم ص غیب نہیں جانتے ہیں،اور چند جگہ یہ کہا گیا ہے کہ آپ بھی دیگر بشر کی طرح بشر ہے فرق یہ ہے کہ آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی اکرم ص اپنے لیے کسی فائدہ یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔
﴿ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسي‏ نَفْعاً وَلا ضَرًّا﴾ [الأعراف:188]
لیکن تم لوگوں کے لیے تو امام زادہ داود کے متعلق بھی یہ عقیدہ رکھنا قبول نہیں(کہ وہ نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں)،چہ جائیکہ یہ مانیں کہ محمد ص اپنا فائدہ یا نقصان کا ختیار نہیں رکھتا اس کو مانیں!!

رسول اللہ ص کے ایک خاص صحابی ابن مکتوم اندھے تھے،نہ تو خود انہوں نے رسول اللہ ص سے بینائی مانگی اور نہ رسول اللہ ص نے ان کے لیے ایسا کیا،علی ؑ کے بھائی عقیل اندھے ہو گئے تھے نہ تو انہوں نے اپنے بھائی علی کی نذر مانی کی بینائی واپس آجائے اور نہ علی ؑ عقیل کو اندھے پن سے شفا دے سکے!لیکن تم کہتے ہو کہ تربت امام (خاک کربلا) ہر بیماری سے شفا ہے اور ہر مشکلات و آفات سے یہ تربت بچاتا ہے۔
تمہاری یہ بات درست نہیں ،اگر تم اللہ کے دین سے مذاق کرنا چاہتے ہو یا لوگوں کا جانی نقصان چاہتے ہو،اگر مذاق نہیں کر رہے لوگوں سے کھیل نہیں رہے اور اپنی بات میں سنجیدہ ہو تو بیٹھے کیوں ہو؟ کھڑے ہو جاؤ اور ان تمام ہسپتالوں کو بند کرو، تمام دوا خانوں کو بند کر دو،اور میڈیکل کالجوں کو بھی ختم کرو،اور فارمیسی دواسازی کو بھی روک دو۔کیونکہ ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔لیکن اگر تم یہ کہتے ہو کہ عقیدہ و ایمان کا تقاضا ہے کہ خاک شفا کو لازم جانیں،تو اس کا آسان حل ہے،کیا تم خود عقیدہ و ایمان کے حامل نہیں ہو(جب بیمار ہوتے ہیں تو ایران سے باہر ممالک جا کر اپنا علاج کرتے ہیں جیسے آیت اللہ نجومی وغیرہ ہر مجتہد باہر ممالک جاتا ہے بیچاری عوام کو خاک کربلا کا چونا لگاتے ہیں)؟ تو پہلے اس خاک شفا کو خود پر آزماؤ کہ بیماریوں سے شفا ملتی ہے یا نہیں؟ لوگ جس وقت دیکھیں گے اپنی آنکھوں سے تو عقیدہ بن جائے گا ان کا بھی۔اور اس کے نتیجے میں سب لوگ ایمان لائیں گے اور لوگ دنیا میں بیماریوں اور ادویات پر پسہ خرچ کرنے سے بے چارے بچ جائیں گے۔

تم خود ہی تو کہتے ہو کہ کسی کے لیے (پختہ)قبر بنانا درست نہیں، جیسا کہ اسی کتاب الکافی میں چند احادیث پیغمبر اور آئمہ سے نقل کی گئی ہے جس میں انہوں نے یہ وصیت کی ہے کہ ہماری قبر کو زمین سے 4 انگلیوں کے برابر اونچا رکھنا،اور کچھ جگہ کہا ہے کہ ہماری قبر صرف چار انگلیوں کے برابر بلند رکھیں۔
اور اس پر پانی چھڑکیں(ڈالیں)۔اس سے معلوم ہوا کہ زمین سے 4 انگشت اونچا اسی لیے رکھا جائے تاکہ پانی ڈالنے کے بعد اور وقت گزرنے کے بعد یہ قبر زمین کے برابر ہو جائے،جیسا کہ دوسری جگہ لکھا ہوا ہے ایک روایت میں کہ نبی کریم ص اور صحابہ کے قبور زمین کے برابر یا ہموار تھے۔اور یہ حدیث کافی جگہ آیا ہے کہ علی ؑ فرماتے تھے کہ میں کیا تمہیں اس کام پر روانہ نہ کروں جس کا حکم دے کر رسول ص نے مجھے بھیجا تھا کہ جو قبر زمین سے اونچا ہو اس کو ہموار کریں اور تمثال جو نظر آئیں ان کو مٹا دیں أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ، لا تَرَى قَبْراً مُشْرِفاً إِلا سَوَّيْتَهُ وَلا تِمْثَالاً إِلا طَمَسْتَه ۔اب پوچھنا چاہیے کہ جب تمہارے پاس یہ احکامات موجود ہیں(جن میں سے کچھ کا یہاں ذکر ہوا)،پھر کیسے تم اجازت دے سکتے ہو کہ قبروں پر گنبد اور بارگاہوں کو بنائیں؟؟
کہتے ہیں کہ کہ کیا بزرگان دین سرباز گمنام اور فردوسی سے ان کا مرتبہ کچھ کم نہیں،پھر کیوں ان کے قبروں پر تعمیرات ہو اور بزرگان دین کے قبروں پر ہم تعمیرات نہ کریں؟ ہم کہتے ہیں کہ تم دوسروں کے مقلد نہیں ہو(خود مجتہد ہو)۔وہ کیا کرتے ہیں اس سے تہمیں کیا لینا دینا،تمہیں تو روایات و احادیث میں منع کیا گیا ہے کہ قبروں پر کچھ تعمیر کریں ان مناہی کا کیا کرو گے۔اور اس کے علاوہ غیر کا اھترام عبادت ہے ،تم قبر کو باب الھوائج کہتے ہو،اور ان قبروں پر زیارت جامعہ پڑھتے ہو جو مکمل شرک ہے،تم خاک قبر پر سجدہ بھی کرتے ہو،کیا ان کا کام اور تمہارے کام ایک جیسے ہیں؟
یہ کہتے ہیں کہ جب کسی حاکم شہر(یا بادشاہ) سے کوئی کام ہوتا ہے تو اس کے دربان کو پہلے تلاش کیا جاتا ہے،کیا خدا تعالی کسی حاکم کے بقدر نہیں ؟ ہم کہتے ہیں تم نے غلطی کی ہے ،تم نے خدا تعالی کو جو ہر جگہ حاضر ہے اس کو ایک حاکم سے تشبیہ دی ہے جو اپنا کام اپنے وزیر یا دربان کے ب غیر نہیں کر سکتا؟

وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا
ہمارے آج کے دین میں ہم کہتے ہیں کہ اصول دین میں سے دوسرا عدل ہے،لیکن گندم نما جو فروشوں کی طرح ہم نے خدا سے ایسے اعمال منسوب کیے ہیں جس کے کام (نعوذ باللہ) ظالمانہ(عدل کے برخلاف) اور اس کے کام بچگانہ ہیں۔کیونکہ یہ خدا زیادہ کام کرنے والے(مزدور کو) کم اجرت دیتا ہے اور کم کام کرنے والوں کو زیادہ(خلاف عدل ہے)،یہ خدا ہے کہ آج کچھ اٹل ارادہ کیا تو کل اپنے ارادے سے پھر گئے۔الکافی میں صحیح سند سے روایت ہے کہ خدا نے امام قائم کے قیام کو سنہ 70 ہجری معین کیا تھا،لیکن جب لوگوں نے امام حسین ع کو شہید کیا تو خدا( نے اپنا ارداہ بدل دیا) زمین والوں سے ناراض ہو گیا،اور سال 140 متعین کیا۔

إِنَّ اللهَ تَعَالَى كَانَ وَقَّتَ هَذَا الأمْرَ [أي قيام القائم] فِي السَّبْعِينَ [أي سنة 70 هـ] فَلَمَّا قُتِلَ
الحُسَيْنُ اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى أَهْلِ الأرْضِ فَأَخَّرَهُ إِلَى أَرْبَعِينَ وَمِائَةِ سَنَةٍ، فَحَدَّثْنَاكُمْ فَأَذَعْتُمُ الحَدِيثَ وَكَشَفْتُمْ قِنَاعَ السِّتْرِ فَأَخَّرَهُ اللهُ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ وَقْتاً عِنْدَنَا
ایک اور روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق ع نے اسماعیل کو اپنا جانشین (اگلا امام)بنایا،لیکن اسماعیل فرزند جعفر صادق سے ایسے اعمال سرزد ہوئے کہ ان کو پسند نہ آیا،اور موسی کو اپنا جانشین بنایا۔جب پوچھا کہ ایسا کیوں ہوا تو فرمایا کہ خدا کو "بدا" ہو گیا۔بدا لِـلَّهِ في إسماعيل!
اگر خدا ایسا ہی ہے جیسے ان اھادیث میں بیان ہوا تو ہر بے سر و پا کو حق ہے کہ وہ (نعوذ باللہ ) خدائی کا دعوی کرے۔

یہ خدا ایک زیارت یا ایک عزاداری کا ثواب ہزار شہیدوں کے ثواب کے برابر،بلکہ ایک روایت میں 1 لاکھ شہیدوں کے برابر،اور ایک روایت میں 10 لاکھ شہیدوں کے برابر ثواب کہا ہے۔درست ،اگر واقعی خدا ایسا ہی ہے جیسے ان روایات میں بتایا گیا ہے کہ اس قدر ثواب دیتا ہے، تو ہم یہ کہیں گے کہ شہدائے بدر و شہدائے احد کتنے بدقسمت تھے کہ ان کو یہ راز معلوم نہ ہو سکا کہ خڈا کے ہاں اس طرح کا ثواب حاصل کرنا کتنا آسان ہے(تم تو صرف ایک شہید کا ثواب مل گیا یہاں تو 10 لاکھ شہدا کا ثواب وہ بھی جان کی بازی لگائے بغیر)،بلا وجہ ان بیچاروں نے اپنی جان کو قربان کر دیا،اور ہم لوگ (ہمارے زمانہ کے لوگ) کتنے خوش قمست ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسا خدا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم آرام و سکھ میں ہے(جان کی بازی نہیں لگا رہے)،کھاتے بھی ہیں،پیتے بھی ہیں،اور ایک زیارت کر کے بدر کے ہزار شہدا کے برابر ثواب بھی کما لیتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

اسرار ہزار سالہ علی اکبر حکمی زادہ اردو