اسرار ہزار سالہ علی اکبر حکمی زادہ اردو


ہزار سالوں کے راز(اسرار)!!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج اسرار ہزار سالہ کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ کر رہا تھا،میرے لیے باعث حیرت یہ ہے کہ ہمارے بہت ہی کم دوستوں کو اس کتاب کا علم ہے حالانکہ آیت اللہ خمینی نے جو کتاب کشف الاسرار لکھی وہ اسی کتاب کا جواب ہے۔چنانچہ ہم اس کتاب کا مختصر تعارف لکھ رہے ہیں۔
علی اکبر حکمی زادہ جو آیت اللہ طالقانی کے بھانجے تھے نیز مدرسہ رضویہ قم کے مدیر ، آیت الله شیخ مهدی قمی پایین شهری کے فرزند تھے۔مہدی قمی وہ عالم تھے کہ جن کے گھر پر حوزہ علمیہ قم کے بانی آیت اللہ حائری نے قیام کیا اور حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھنے اوراس سے متعلق امور طے کیے۔حکمی زادہ نے اپنی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قم سے حاصل کیا۔حکمی زادہ چونکہ ایک پرجوش مذھبی نوجوان تھا اس لیے دورہ سطح میں ہی کتاب الکفایة فی اصول الفقه پر حاشیہ لکھا۔
ایک عرصہ تھا مصائب اہل بیت ع بیان کرنے منبر پر بھی فائز رہے اور شعلہ بیان مقرر بھی تھے اور مرثیہ و نوحہ خوان بھی۔چونکہ عالم دین تھے اس لیے علماء کا خاص لباس یعنی عبا و عمامہ بھی پہنتے تھے بعد میں یہ لباس اتار دیا۔آخر انہوں نے ایک مجلہ کا آغاز کیا جو ہمایون کے نام سے شائع ہوتا تھا جس میں مختلف اصلاح طلب علماء و جوانوں کو لکھنے کا موقع دیا جاتا تھا۔یہ مجلہ 10 یا 12 شمارہ ہی شائع کر پائے تھے کہ علماء و مجتہدین کی شدید مخالفت کی وجہ سے اس مجلہ کو بزور قوت بند ہونا ہی پڑا۔
علی اکبر حکمی زادہ ایک طرف آیت اللہ شریعت سنگلجی کے شاگرد رہے تو دوسری طرف ایک سابقہ عالم یا روحانی سید احمد کسروی کے دوست بھی تھے،کسروی خود جوانی میں عالم رہنے کے بعد علماء کا لباس اتار چکے تھے۔چانچہ کسروی نے اپنے خیالات کو اور اصلاحی کام کو شائع کرنے کے لیے 2 مجلے شائع کیے جو "مجلہ پرچم" اور "مجلہ پیمان" کے نام سے شائع ہعتے تھے۔
1322 شمسی میں بمطابق 1943 عیسوی میں حکمی زادہ کا یہ رسالہ "اسرار ہزار سالہ" احمد کسروی کے مجلہ پرچم کے شمارہ 12 کے ساتھ ہی شائع ہوا۔
اس کتاب کے شائع ہوتے ہی بہت سارے روایتی علماء میں ایک غم و غصہ کی فضا پیدا ہوگئی۔کیونکہ اس کتاب میں شیعت کی بنیاد ،مقدس اصولوں اور شیعہ ازم کے رسومات پر ہی سوال اٹھائے گئے تھے۔
علی اکبر حمی زادہ مجلہ ہمایون کے بانی اور ایڈیٹر تھے جو کہ 1930 کے وسط میں اصلاحی تحریروں کی وجہ سے مشہور رسالہ شمار ہوتا تھا۔

کتاب اسرار ہزار سالہ
کتاب کا نام اسرار ہزار رکھنے کی وجہ یہی ہے کہ کہتے ہیں یہ راز کی باتیں ہیں ہر جگہ پبلک میں یا عوام میں یا مجلسوں میں نہیں کہنا۔۔۔ نیز کتاب میں انہوں نے جیسا کہ لکھا ہے کہ ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرا ہے کہ ہمارے پیشواؤں اور زمام داروں نے اپنے ذاتی اغراض و سیاسی مقاصد کی خاطر دین کو ایک کھلونا یا کھچڑی بنا دیا ہے۔۔۔۔
می‌گویید هر که را اسرار حق آموختند، مهر کردند و زبانش دوختند! می‌گویم این چگونه اسراری است که تنها به مردمان زودباور و بیسواد حق دارید بگویید و نشان دهید ولی پای مردمان دقیق و کنجکاو که به میان می‌آید، انگار جزء اسرار می‌شود. اگر سِر است به هیچکس نباید گفت و اگر نیست، باری یکبار آن را در چنین مجلسی آشکار کنید!

یہ کتاب یا کتابچہ کل 42 صفحات پر مشتمل تھا جس میں بالکل کھلے زبان اور عام انداز میں شیعہ عقیدہ امامت،مجتہدین کا دائرہ کار،اور اختیارات ،نیز مذھب میں جو غیراللہ کو اختیارات دئے گئے تھے،اور زیارت قبور و عزاداری کے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے،اور کچھ احادیث پر بھی سوالات اٹھائے گئے کہ عقل و منطق کے برخلاف یہ احادیث ہیں۔

کتاب کے شروع میں ایک صفحہ کا مقدمہ ہے۔جس میں کہا ہے کہ جس چیز کو تم یعنی علماء مجتہدین نے دین کا نام دے رکھا ہے وہ 95 فیصد گمراہی ہے۔

اس کے بعد 6 سوالات کیے گئے ہیں۔
اس کے بعد کتاب میں 6 اہم موضوعات ذکر کیے گئے ہیں جن کا بعد کے ابواب میں مفصل ذکر ہے۔
2- امامت
3-روحانیت یا مذہبی پیشوا
4-مملکت یا ملک
5- قانون اور شریعت
6-حدیث

اور سب سے آخر میں 13 سوالات اٹھائے گئے ہیں،جو کہ اصل میں ان 15 سوالات پر مشتمل ہیں جو انہوں نے علمائے شیعہ کے لیے مجلہ پرچم میں شائع کیا تھا۔

یہ 13 سوالات درج ذیل ہیں:

سوالات:
سوال نمبر 1: پیغمبر و اماموں سے حاجات طلب کرنا،تربت(خاک کربلا) سے شفا مانگنا اور اس پر سجدہ کرنا،اور قبروں پر یہ گنبد تعمیر کرنا اور بارگاہ بنانا کیا یہ شرک ہے یا نہیں؟ اگر یہ شرک ہے تو بتائیں اور اگر یہ شرک نہیں ہے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ پہلے یہ بتائیں کہ شرک کا معنی کیا ہے؟ تاکہ ہم دیکھ لیں کہ جس شرک کو کہ جس سے اسلام و قرآن نے اعلان جنگ کیا وہ سب اور ان کاموں میں فرق کیا ہے پتہ چل سکے؟؟

سوال نمبر 2: کیا ہم استخارہ کے ذریعے یا اس جیسے دیگر عمل کے ذریعے اللہ تعالی ٰ سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں؟اور مستقبل کے نیک اور بد کے متعلق خبر مل سکتا ہے اس طریقے سے؟اگر اس طریقہ سے ہمیں خبر مل سکتا ہے تو پھر ہمیں اس طرح بہت سارے فوائد مالی،سیاسی، اور جنگی حاصل ہونے چاہیں۔اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ موثر یا طاقت والا ہونا چاہیے؟پس پھر کیوں اللہ تعالی نے اس کے بالکل برعکس فرمایا:
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (188) ۞
اگر اس عمل سے کوئی فائدہ ایسا نہیں ملتا پھر کیوں اللہ کے نام سے،لوگوں کے مال و جان سے دھوکہ بازی کرتے ہو؟؟

سوال نمبر 3:اگر امامت کا عقیدہ مذھب کے اصول میں چوتھے نمبر پر ہے،اور جیسا کہ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ امامت کے متعلق بہت ساری آیات موجود ہیں،پھر اللہ تعالی نے آخر کیوں ایک ہی بار صرٰیح واضح طور پر نہیں فرمایا تاکہ ہمیشہ کے لیے وہ خونریزی اور جھگڑا جو اس موضوع کی وجہ سے پیدا ہوا،واقع ہی نہ ہوتا؟؟

سوال نمر 4:ہر کام کا اتنا ہی اجرت ملتا ہے جتنا اس نے عمل کیا،پس جو اھادیث ایک زیارت،یا عزاداری یا اس کے ہم مثل کاموں کے متعلق ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایک زیارت یا ایک عزاداری برپا کرنا ایسا ہے کہ اس شخص کو ہزار پیغمبروں یا (بدر )شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا؟ کیا ایسی احادیث درست ہیں؟

سوال نمبر 5:یہ جو کہا جاتا ہے کہ مجتہد امام زمانہ کی غیبت میں نائب امام ہے؟کیا یہ بات درست ہے؟ اگر درست ہے پھر اس کے حدود کیا ہیں؟ کیا ولایت اور حکومت بھی اس کے حدود میں داخل ہیں؟

سوال نمبر 6:اگر مجتہد اپنی تنخواہ کام کرکے ،یا ایک واضح و معین راستہ سے لیں تو وہ حقائق بتانے میں آزاد ہوگا، کیا ایسا بہتر ہے یا جیسے آج کل رائج ہے کہ عوام(مقلدین) سے اپنے لیے پیسے(خمس) لیتا ہے اور مجبورا اپنی کمائی کی خاطر عوام کے موافق ہی بات کرتا ہے(یعنی مرجع تقلید کود عوام کا مقلد بن گیا ہے)؟

سوال نمر 7: یہ جو کہا جاتا ہے کہ حوکمت ظالم(طاغوت) ہے؟اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ جب کوئی حکومت اپنے فرائض صحیح طور پر انجام نہ دیں تب وہ ظالم ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت صرف مجتہد کے ہاتھ میں ہو تب ہی درست ہے؟؟

سوال نمبر 8: یہ جو کہا جاتا ہے کہ ٹیکس لگانا حرام ہے تواس کا مطلب کیا یہ ہے کہ ٹیکس بالکل بھی نہیں لینا چاہیے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس کے بدلے زکواۃ لینا چاہیے؟ اگر مطلب دوم درست ہے یعنی زکواۃ لینا چاہیے تو ہمارے سامنے آج کل تہران کی مثال ہے،یا مازنداران کی یا دیگر شہروں کی جو کہ صنعتی شہر ہیں تو ہم کیسے ان سے زکواۃ لے سکتے ہیں(جب کہ شیعہ فقہ میں زکواۃ صرف 9 چیزوں پر ہی ہے)؟/

سوال نمبر 9: کیا انسانوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے (ملکی)قانون وضع کر سکتے ہیں؟اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا کسی ایسے قانون کی اطاعت واجب ہے یا نہیں؟اگر واجب ہے تو ایسے شخص کی سزا کیا ہوگی جو اس قانون کی خلاف ورزی کرے؟

سوال نمبر 10:یہ مسلم ہے کہ قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی بہت جگہ ناسخ و منسوک موجود ہیں۔اور اس کی علت بھی تغیر زمانہ ہے۔جب ایک زمانہ میں ایک قانون رہا تو بعد میں منسوخ ہوا،۔۔۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ تمام قوانین اسلام ہر زمانے کے لیے ہے؟ ہماری خواہش ہے کہ آپ اس کے مسلم حوالے اور اس پر روشنی ڈالیں اور اس کو بیان کریں؟

سوال نمبر 11:جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آج ہمارے پاس جو احادیث ہیں وہ ظنی ہیں،اور انسانی عقل بھی یہ نہیں مان سکتا کہ اللہ تعالی قادر و عادل اشرف المخلوقات پر وہ چیز فرض کریں جس کے وہ مکلف نہیں؟۔اللہ نے انسانوں کو عقل کے استعمال پر زور دیا(جیسے کتب اھادیث میں عقل کو انسانوں کا نبی کیا گیا ہے ہدایت پانے کے لیے)۔۔

سوال نمبر 12:بہت ساری احدیث موجود ہیں جو عقل و علم اور زندگی اور بلکہ بعض تو بالکل خلاف حس ہے،حالانکہ ایسی روایات کی سند بھی صحیح ہے،جیسے حدیث گائے کی سینگ پر دنیا ہونا،مچھلی(جس کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے)،جابلق و جابلس کے متعلق روایات،یا زکواۃ (کہ صرف 9 چیزوں پر زکواۃ ہے جب کہ اس سے مالدار جو جانور نہیں رکھتے ارب پتی بھی پیسوں پر زکواۃ نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں بیچارے کسان جن کے پاس چند بکریاں ہو بس وہ زکواۃ دیتے ہیں)و جہاد کے متعلق بعض روایات(جیسے یمانی،سفیانی،اور خراسانی وغیرہ مزید باب علائم الظہور بحار النوار میں ہیں)،ان کا کیا کرنا چاہیے؟؟

سوال نمبر 13:آپ کے خیال میں لوگ آج دین سے دور ہیں اس کی اصل وجہ کیا ہے؟؟

یہ کل سوالات کتاب کے آخر میں شائع کے اور یہ سوالات دراصل ان 6 موضوعات کا نچوڑ ہے جو کتاب میں موجود ہیں۔

اس کتاب میں جو باتیں کی گئی ہیں وہ دراصل خلاصہ ہے آیت اللہ شریعت سنگلجی کی کتب و تقاریر کا،اور جناب سید احمد کسروی کی سینکڑوں کتب بالخصوص شیعہ گری اور ان کے مجلہ پرچم و کمان میں ان نکتوں کو مفصل لکھا گیا ہے بلکہ احادیث والا حصہ مجلہ پرچم کے شمارہ 12 میں بھی ہے جہاں الکافی،وسائل الشیعہ وغیرہ کے کافی اھادیث کو جو خلاف عقل و قرآن ہے بتایا گیا ہے۔

Comments